Book : Mera Ishq Sufiyana By Kanwal riaz, Reviewer : Nimra Malik
کتاب : میرا عشق صوفیانہ مصنفہ : کنول ریاض تبصرہ نگار : نمرہ ملک
کنول ریاض سچے لفظوں کی منفرد لکھاری ہیں۔میری پیاری دوست ہیں مگر آج ان کی کتاب سامنے آنے پہ میں نے اک قاری کی حثیت سے اسے پڑھا ہے۔دوستی کو درمیا ن سے ہٹا کے پڑھا تو مجھ پہ ڈھیروں انکشافات ہوئے۔بظاہر سیدھی سادی کنول ریاض کے افسانوں میں بطور خاص عورت کیسے سانس لیتی ہے،دکھ کیسے بولتے ہیں،معاشرتی برائیاں کیسے بے نقاب ہوتی ہیں ،سماجی بیماریاں کیسے کیسے حالات سے نبرد آزما ہوتی ہیں اور ہنستے کھیلتے چہرے کیسے کیسے دکھ چھپا کے جیتے ہیں،یہ سب کنول کی تحریروں کی عکاسی کرتے نظر آتے ہیں۔
’’میرا عشق صوفیانہ‘‘ علی میاں پبلیکیشنز ؛لاہور سے شائع ہوئی ہے۔اس کتاب کا انتساب ہر بیٹی کی طرح اپنے باپ کو آئیڈیل ماننے والی کنول ریاض نے اپنے والد مرحوم کے نام لکھا ہے کہ وہ مہکتی یاد بن کر مجھ میں زندہ ہیں۔فوزیہ شفیق نے بہت محبت بھرے انداز میں جاندار دیباچہ لکھا ہے ۔وہ لکھتی ہیں’’کنول ریاض کو بہت اچھی طرح سے پتہ ہے کہ کہانی کا تانا بانا بنتے اس کے حقیقی تقاضے نبھاہنے بے حد ضروری ہیں۔ان کے لکھنے،بات کہنے کا الگ ہی انداز ہے۔ان کی تحریروں میں برجستگی ہے۔پختگی ہے۔وہ سماج کے بیشتر پہلوؤں کو کرداروں میں ڈھال کر پیش کرتی ہیں۔ان کی تحریروں میں رومان،آرزوئیں اور خواب نئے انداز میں جنم لیتے ہیں اور کردار حقیقی صورت حال کوجاگر کرتے ہیں۔وہ ماحول کی عکاسی اتنی خوبصورتی سے کرتی ہیں کہ کردار حقیقی زندگی سے رابطہ جوڑتے نظر آتے ہیں ‘‘فوزیہ شفیق ،کنول کی محبتوں کو قابل فخر اثاثہ قرار دیتی ہیں۔
خود کنول اپنے تحریری سفر کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے خود کو قلم کے بنا ادھورا خیال کرتی ہیں۔خواتین ڈائجسٹ سے ،شعاع ،حنا اور اردو ڈائجسٹ تک سفر کرتے اب ان کا شمار ڈرامہ رائٹرز میں بھی ہوتا ہے جو کہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے۔
کنول رقمطراز ہیں’’ہر موضوع کو لکھتے ہوئے میرے احساسات بھی مختلف رہے۔کرداروں کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ان کے دکھ سکھ،نوک جھونک،خوشی غمی،فکر انگیزی،رشتوں میں پنپتی محبت و نفرت اور خیر و شر کے درمیان بھٹکتی زہنی کشمکش میرے احساسات کو بھی تبدیل کرتی رہی۔ان سب میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے عشق و محبت جو کائنات کی اسا س ہے اور کوئی بھی شخص محبت کے موضوع سے پہلو تہی نہیں کر سکتا۔‘‘کنول محبت کے آفاقی جذبے کو انسانیت کی معراج قرار دیتی ہیں لیکن ساتھ ہی وہ کہتی ہیں کہ میرا قلم بے باک نہیں لہٰذا راقم اسطور کے انداز تحریر اورکہانیوں کی قدر مشترک کے اعتبار سے اس کا نام ’’میرا عشق صوفیانہ ‘‘رکھا گیا جو فوزیہ شفیق کا ہی تجویز کردہ ہے۔
اب زرا کنول کے ناولٹ کے اس مجموعے پہ بھی نظر کرتے ہیں ۔۔کئی جہانوں کی سیر کرواتی یہ کتاب در حقیقت ہمارے گرد بکھرے انسانی کرداروں کی ہی سچی کہانوں پہ مشتمل ہے جنہیں افسانوی رنگ دینے کا کمال کنول کا ہے۔
’’میرا عشق صوفیانہ‘‘کا پہلا ناولٹ ہی قاری کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتا ہے۔’’محبت ایسا نغمہ ہے‘‘ناولٹ اگرچہ تعلیمی دور کے گرد گھومتا ہے ،اس کے ہنستے بستے کردار بھی آج کی درسگاہوں میں سانس لیتے ہیں مگر اس ناولٹ کی خاص بات اس میں کردار سازی پہ توجہ ہے۔کردار ایک ایسی چیز ہے جو بطور خاص خواتین کیلیے نازک ترین شے ہے مگر کنول کے اس ناولٹ میں صرف خواتین ہی نہیں بلکہ مرد بھی یہ بتاتے نظر آتے ہیں کہ عزت و حرمت ،کردار اور انا کسی اک صنف کی میراث بالکل نہیں۔عورت اگر عزت کی خاطر محبت ٹھکرا سکتی ہے تو مرد بھی اپنے کردار کے حوالے سے بہت پوزیسو ہوتا ہے۔کنول اپنے کرداروں کے منہ سے بہت خوبصورتی سے ایک پیغام دیتی ہیں کہ عورت کو کردار کا مضبوط ہونا چاہئیے یہ نہیں کہ دوستی کے نام پہ اپنی نسوانیت اور وقار کی دھجیاں اڑاتی پھرے۔علی شاہ کا کردار مرد انہ عزت نفس اور باکرداری کی بہترین مثال ہے جو کہتا ہے’’رائٹ مین تلاشنے کے لیے بیسیوں لڑکوں سے دوستی کرنا،رات گئے تک ہوٹلنگ،موبائل چیٹنگ بھی شرط نہیں ،سیدھے سبھاؤ بھی تلاش کیا جا سکتا ہے اور اس کی بھی کیا ضرورت ہے جو نصیب میں لکھا ہوگا وہ مل جائے گا‘‘۔
اس ناولٹ میں محبت بھرے کرداروں کو بہت خوبصورتی سے ملانے کے بعد کنول کوزے کو دریا میں بند کرتے ہوئے محبت کی ثابت قدمی کو سلام کہتی ہیں
محبت ایسا رستہ ہے
اگر پیروں میں ہو لرزش
تو یہ محرم نہیں ہوتا۔۔
’’محبت کا تقاضا ہے‘‘۔ناولٹ بھی ملی جلی کیفیات کا نام ہے مگر اس میں جذبوں کی پزیرائی کو انوکھے انداز میں برتنے کا ہنر دکھایا گیا ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ یہ ہی ’’عشق صوفیانہ ہے‘‘۔یہ ناولٹ کنول کے پہلے ناولٹ سے میل کھاتا ہے ۔
’’خارزار‘‘ کنول کی ایسی تحریر ہے جس کے بارے میں مجھے کہنے میں عار نہیں کہ اب تک لکھی گئی تمام تحریروں میں یہ ناولٹ اول نمبر پہ آتا ہے۔ایڈز جیسے موزی مرض پہ لکھے گئے اس ناولٹ میں فحاشی و بے حیائی کو بری طرح ریجیکٹ کر کے محرم رشتوں سے انصاف کا سبق دیتی یہ تحریر بلاشبہ کنول کی شاہکار تحریر ہے۔کنول نے بے حد خوبصورتی سے ایڈز کو کئی کرداروں اور ان سے منسلک لوگوں کے مسائل کے گرد گھومتے دکھایا،نہ صرف یہ کہ لوگوں کی کم علمی اور جہالت پہ رونا رویا بلکہ انہیں اس جہنم سے نکلنے کی امید بھی دلائی۔ضروری نہیں کہ ایسے امراض کسی غیر فطری تعلق کی بنا پہ ہوں بلکہ یہ موزی مرض کسی بے احتیاطی سے بھی لگ سکتا ہے جن میں سر فہرست خون کا ٹیسٹ کیے بنا مریض کو لگا دینا ہے۔استعمال شدہ سرنج،حجام کے اوزار جنہیں بار بار استعمال کیا گیا ہو یا اخلاقی بے راہروی بھی اس مرض کا پیش خیمہ بن سکتی ہے۔کنول نے بہت مدلل انداز میں انتہادرجے کی فراست سے کرداروں کو مختلف ہسپتالوں اور ہیلپ لاین کا بتایا،اسکی ٹریٹمنٹ کا طریقہ کار بھی سجھا دیا اور بتا دیا کہ اس کی علامات کیا ہیں،اس کا اثر مریض پہ کیسے ہوتا ہے،مریض کو کیسے علاج کروانا ہے اور اس کے وائرس کو کیسے روکا یا کم کیا جا سکتا ہے۔کنول نے اپنے کرداروں کے منہ سے آٹھ ہسپتالوں کا بھی خوبصورت پیغام عوامی نقطہ نظر سے پہنچا دیا ۔کنول نے نہ صرف یہ کہ مرض،مریض اور اس کے لواحقین کی حالت زار بیان کی بلکہ مریض کے ساتھ ارد گرد کے لوگوں کے منفی رویوں کی بھی مذمت کرتے ہوئے نئی راہ سجھائی کہ مریض کو تنہا مرض کے ساتھ چھوڑنا مزید کیس پیدا کرنا ہے اس لیے ہمیں ایسے لوگوں کی دادرسی کرنی چاہئیے۔دیہی زندگی کی توہم پرستی اور بالخصوص جاگیرانہ طبقے کی گناہ آلود زندگی کو موج میلہ اور مستی کہہ دینے والے اشرافیہ کے لیے یہ ناولٹ ایک تمانچے کی حثیت رکھتا ہے۔
’’محبت اب نہیں ہوگی‘‘کنول کا ایک اور شاہکار ناولٹ ہے جو کھٹے میٹھے جملوں اور تند و تیز لفظوں سے قاری کو اپنے سحر میں آخر تک جکڑے رکھتا ہے۔خاندانی نظام،محبت کی سرگوشیاں،ہجر و وصال کی دستکیں ،معصومیت اور زندگی کے کئی چھوٹے بڑے مسائل قاری کو اپنی گرفت سے اس طرح نکلنے نہیں دیتے جیسے گاؤں کی میٹھی لسی سے بھری چاٹی کسی گم کردہ دیہاتی کو قدم جمانے پہ مجبور کردیتی ہے۔کنول اپنی تحریروں میں خود بھی جوگن بنی آسن جمائے جگہ جگہ پہ چونکا جاتی ہے ۔
9/11 کے پس منظر میں لکھی گئی ’’زرا نم ہو تو یہ مٹی‘‘نہ صرف قاری کا درد بڑھادیتی ہے بلکہ ہر محب وطن پاکستانی بالخصوص مسلمان کو کسک دیتی نظر آتی ہے۔دیس سے محبت اور مذہب سے عشق اس کہانی کا بنیادی حصہ بن کر ساتھ ساتھ رہتا ہے۔یہ تحریر پڑھتے احساس ہوتا ہے کہ خالق لکھتے وقت کس قدر کرب سے آشنا ہو کر امت مسلمہ کی حالت زار پہ سسک رہا تھا۔مسلم مظلوم ممالک کی کہانی،امت مسلمہ کا خواب غفلت اور اہل دل و درد کا سوز بیان کرتا یہ ناولٹ قاری کو بری طرح اندر سے جھجھوڑ ڈالتا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ قومی حمیت اور دینی غیرت بھی اس تحریر کا احاطہ کیے ہوئے ہے مگر کنول کہیں بھی جوش کے ساتھ ہوش و خرد کو کھونے پہ آمادہ نہیں ۔وہ زی العید کے منہ سے اپنا پیغام یوں دیتی ہیں’’مردانگی جوش محض اور جلد بازی کا نام نہیں بلکہ حقیقی جوانمردی صبر و استقامت اور مستقل مزاجی میں ہے‘‘۔ہر محب وطن کی طرح اس ناولٹ کے کردار بھی بین الاقوامی سازشوں اور امت مسلمہ کی حالت زار پہ نوحہ کنا ں ہیں بالخصوص امریکہ کی بے شرم اور یہود و ہنود کی طرف جھکاؤ کی یکطرفہ پالیساں جا بہ جا قاری کی آنکھیں کھولتی ہیں اور انہیں عراق،افغانستان،چچنیا،فلسطین،کشمیر اور بہت سے مظلوم مسلم ممالک کی قابل رحم حالت سے آشنا کرتی ہیں۔اسلام کی اصل روح سے آشنا کرتی یہ تحریر خونچکاں تو ہے ہی ساتھ ساتھ اسلام کا پیغام بھی بہترین طریقے سے دیتی ہے۔تحریر کا اختتام نئی نسل کے ایک خوبصورت جملے پہ ہوتا ہے کہ ’’میرے آئیڈیل حضرت عمر فاروقؓ ہیں‘‘جس پہ کمپئیر کنول کا اصل پیغام امید دیتی ہے کہ زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی!
’’کیہہ جاناں میں کون‘‘ایک اور سماجی بلکہ آفاقی مسئلے کو بنیاد بنا کر لکھا گیا ناول ہے۔مادیت پرست لوگ دنیا کی خاطر آخرت برباد کر لیتے ہیں۔زیر نظر ناول میں بھی ان لوگوں کو موضوع بنایا گیا ہے جو دنیاوی جاہ و جلال اور چند سکوں کی خاطر،شہرت کے بھوکے پن میں اپنا دین و دنیا برباد کر لیتے ہیں۔اس ناول کا پہلا جملہ ہلا دیتا ہے۔’’میرے لیے رام اور رحیم برابر ہیں‘‘۔یہ ایک جملہ ہی اپنے اندر ہزاروں سوال لیے ہوئے ہے۔لبرل زہن کے مالک لوگ کیسے اپنی آخرت آگ میں ڈال لیتے ہیں اور کیسے امن کی نسلیں تباہی کی جانب گامزن ہو تی ہیں۔یہ ناول ہندو،مسلم،عیسائی اور دوسرے کئی مذاہب کے سامنے اسلام کی اصل روح پیش کرتا ہے اور اس کی حقانیت کو پرت در پرت کھولتا ہے۔مسلمان کتنا وسیع النظر ہوتا ہے ،دوسرے لفظوں میں اسلام کتنی وسعت والا مذہب ہے۔اس کے برعکس دوسرے مذاہب بالخصوص ہندو مت کتنا تنگ نظر اور انتہا پسند ہے اس کا اندازہ اس ناول کو پڑھ کے لگایا جا سکتا ہے۔اس ناول کی خاص بات یہ ہے کہ بھٹک جانے والوں کی سزا سے عبرت پکڑ کر رہ جانے والوں نے اسلام کی حقانیت تلاش کر لی اور اس پہ مکمل عمل پیرا ہو گئے اور دوسروں کے لیے مشعل راہ بھی بن گئے۔یہ ناول اپنے انداز فکر سے قاری پہ واضع کردیتا ہے کہ عزت اور شہرت دینے والا صرف اللہ ہے۔’’ایک نے اللہ کے ساتھ رشتہ جوڑا تو گویا ساری دنیا اس کے قدموں تلے بچھ گئی اور دوسرے نے اللہ کی یاد سے غفلت برتی تو دنیا نے اسے اپنے قدموں تلے روند ڈالا۔اللہ کی زات آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا کو بھی کامیاب کر دینے والا گر بتاتی ہے۔کنول آخر میں کہتی ہیں’’رام اور رحیم کو ایک کہنے والوں نے یہ بھی جان لیا تھا کہ ’’رحیم‘‘ جس کی صفت ہے وہ اپنے بندوں پہ کتنا مہربان ہے‘‘
کنول کی یہ کتاب نہ صرف معاشرتی کرداروں کا مجموعہ ہے بلکہ اس میں آفاقی جذبوں کی آبیاری بھی روح سے کی گئی ہے اور جو جذبات روح سے کشید کئے جائیں وہی ’’ عشق صوفیانہ ‘‘ کی بنیاد بنتے ہیں۔
Comments
Post a Comment