Reviewer: Hira Qureshi, Book: Tooti Hui Sarak by Mohammad Jamil Akhtar





Book : Tooti Hui Sarak
Writer : Mohammad Jamil Akhtar 
Price : 300 pkr 
Pages : 120
Publisher : Pakistan Adab Publisher 
Category : Short Stories
Review : Haniya Ahmed


کتاب : ٹوٹی ہوئی سڑک
مصنف : محمد جمیل اختر
قیمت :  300
صفحات : 120
ناشران : پاکستان ادب پبلشر 
صنف : افسانے 
مبصر : حرا قریشی

یوں لگتا ہے آج کل لفظ مجھ سے ناراض اور دامن چھڑاۓ چھڑاۓ پھرتے ہیں...دل کسی حشرات الارض کے بل کی طرح تاریک ہے...آنکھیں ڈر کے معبد میں سجدہ نشیں...روح محروم یقیں اور دماغ قباۓ ضعیفی میں بڑی فرصت سے لپٹ کر رہ گیا ہے یہی وجہ ہے کہ کتنے دن سے ایک بے مثل افسانوں کا مجموعہ میرے سرہانے دھرا ہے ...کبھی کبھی تکیے کے پاس سے سرک کر میری نرم گرم آغوش میں بھی محو استراحت ہو جاتا ہے تو کبھی میرے رخ افسردہ پر اپنا بھاری بھرکم دانش مندانہ سر رکھ کر آنکھیں موندے لمبی تان کر سو جاتا ہے....تو کبھی خفگی بھری نگاہوں سے ٹکٹکی باندھ کر دیکھے جاتا ہے...سکوں آفریں ایام ذیست میں جانے یہ کیسی بے ثباتی آتی جا رہی ہے...سمجھ سے بالاتر ہے...!!!
بہرکیف ایک ادنی سی کہانی کار ہونے کے ناطے میں نے آج اس روٹھے صاحب من کو منانے کا سوچ لیا ہے.
اس ماہ کی تین تاریخ کے بعد سے اب تک ہر سیکنڈ'ہر منٹ میں شاید ہی کوئی ایسا لمحہ ہو جب میں نے صاحب من سے کی گئی باتوں کا مفہوم اخذ کرنے کی سعی نہ کی ہوں...
'یہ' اور 'میں' کسی معتبر ہمزاد کی طرح اک دوجے کے سنگ سرب کائنات سے کٹ کر دیر تک گفتگو کرتے رہے یہ مجھے سمجھاتا رہا اور میری ناسمجھ بھنوؤں کے نشیب و فراز پر آڑھے ترچھے منہ بھی بناتا رہا.میں مسکرائی بھی...میری آنکھیں پرنم بھی ہوئیں...احمقوں کی طرح گردن بھی گھماتی رہی مگر مجال ہے جو اس صاحب من کی پیشانی پر کوئی بل بھی آیا ہو...ویسے اس کی زبان اس سے زیادہ شاید ہی کوئی شخص سمجھتا ہو اور مجھے تو سمجھ کر بھی دماغ کا ادراک والا پلاٹ صاف شفاف دکھتا ہے بہرحال بات جو بھی ہے اس صاحب من "ٹوٹی ہوئی سڑک" کے خالق سے بصورت حروف دانش کے میں نے جو کچھ بھی اپنے لۓ وصول کیا ہے وہ کسی بھی محبوب لفظ اور شے کی مانند میرے لۓ گراں قدر ہے...یہ خدا بھی جانتا ہے اور میرا دل بھی...!!!
کتنی دیر تک
املتاس کے پیڑ کے نیچے
بیٹھ کے ہم نے باتیں کیں
کچھ یاد نہیں
بس اتنا اندازہ ہے
چاند ہماری پشت سے ہو کر 
آنکھوں تک آ پہنچا تھا!
"ریلوۓ اسٹیشن" میری پسندیدہ ترین جگہوں میں سے ایک ہے جہاں کی گہما گہمی میں کھو جانے کو جی چاہتا ہے مگر اس تحریر کی ابتداء'وسط اور آخر پر میں محو نہیں ہوئی بلکہ ٹھہر گئی...کتنی عجیب بات ہے ناں...میں ٹھہرکر بھی کمال احمد اور بشارت سے لحظہ بھر کو بھی الگ نہ ہوئی اور پھر وہ ہو گیا جو چاہ کر بھی نہ چاہتے تھے ...ابھی تو ہمیں بشارت سے اس خط کی بابت بہت سے ان کہے لفظوں کو زباں دینی تھی...تیس برس پہلے کے دور میں جانا تھا...گزرے وقت کو کھینچ کر واپس لانا تھا مگر یہ کیا اس نے تو کچھ سنا ہی نہیں ...بس ایک لفظ کہا "خدا حافظ" اور چلا گیا.بلاشبہ اس نے ٹھیک کیا کہ طویل سوالوں کے جواب مختصر وقت میں نہیں دئیے جا سکتے....اور وہ بھی بعد از تیس برس...؟؟؟
نظر بھی آیا'اسے اپنے پاس بھی دیکھا...
میری نگاہ نے یہ التباس بھی دیکھا!
یہی کہا کہ نہیں اس کا راستہ تھا الگ...
پھر اس کے بعد ہی خود کو اداس بھی دیکھا!
"ٹک ٹک ٹک" جب سے پڑھا ہے ایک بازگشت سی سماعت سے چپک کر رہ گئی ہے ...کم'کم'کم...کبھی دل کے راستے کوئی آہستہ آہستہ پکارتا ہے تو کبھی دماغ کی راہ گزر پر کوئی ہتھوڑا لۓ زور و شور سے ضربیں لگانے لگتا ہے...مگر آواز ختم ہی نہیں ہوتی...شدہ شدہ محسوس ہوا جان چھوٹ گئی مگر نہیں ضمیر ہو یا عہد گزشتہ کی صدائیں'یہ تادم مرگ تک ساتھ رہا کرتی ہیں.
کئی سالوں سے میں
اس شہر پراسرار میں 
سانسوں کو گننے کی
 ریاضت کر رہا ہوں...!
"ایٹو موسو" آخر کو کیا بلا ہے یہ...یکدم چونک اٹھے اور پھر جو رمز کھولا ...ستم بالاۓ ستم! تلخ حقیقت کا باب وا ہوا.قلب ناتواں لہو لہو ہوا.باخدا!کتنے ہی ایسے خبطی ہوں گے اس فضاۓ بسیط کے ہر ہر کونے میں' جو دلخراش چیخوں کی آڑ میں ہوش و خرد سے بیگانہ ہو جاتے ہوں گے پس اب میں دو ہاتھ کا ہالہ بناۓ دعا میں مگن ہوں کہ اس مختصر تحریر نے کتنی ہی درد کی ٹیسوں کو پھر سے آواز عطا کر دی ہے...!
"وہ آنکھیں" اس مختصر افسانے نے رنج'دکھ'درد'غم و الم الغرض ہر کیفیت کو ایک "آنکھوں" میں یکجا کرکے رکھ دیا ہے.محکمہ پولیس کی گاڑی سدا سرسری دیکھی مگر اب یوں لگتا ہے کہ اپنی آنکھیں بھی کسی کھڑکی پر نہ ٹھہر جائیں کہیں...؟؟؟
"اداس ماسی نیک بخت" پڑھتے ہی اک نادیدہ دبیز اداسی نے اپنی لپیٹ میں لے لیا.جیسے جیسے مساجد میں صفیں کم ہوتی گئیں ویسے ویسے ماسی کے ہمراہ ہمارے دل میں بھی ایک اداسی کا نہ دکھائی دینے والا خیمہ تعمیر ہوتا گیا.
خشک پتوں کی طرح بستر پہ رات...
یاد کی سڑکوں پہ اڑ کر سوچنا...!
"میں پاگل نہیں ہوں" پر اے کاش کہ میں پاگل ہوتا...!
پھوٹ پھوٹ کر رونا آتا ہے ایسے منظر جب نگاہوں کے سامنے آتے ہیں...کب تک کریم دین جیسے لوگ ناانصافی کی چکی میں چنے کے گھن کے ساتھ یونہی پستے رہیں گے...آخر کب تلک؟؟
"کس جرم کی پائی ہے سزا" کتنے ہی ایسے لوگ اس روۓ زمین پر اس سوال کا بوجھ اٹھاۓ دکھائی دیتے ہیں...بناء کسی قصور کے کوئی عمر قید کاٹتا ہے تو کوئی پھانسی کے تختے کو بصد مسرت گلے لگا لیتا ہے...کوئی ایک تو کوئی کئی گناہ کرکے جیل کی تنگ و تاریک کوٹھری میں قدم رکھ دیتا ہے اور پھر یہ قیدی اپنے جرم کی داستانیں رقم کرتے ہیں.دوسرا پہلے کو تو دوسرا تیسرے کو سناتا ہے پر کچھ مجرم ایسے ہوتے ہیں 'جن کے جرم کا سراغ کبھی نہیں ملتا.ایک ایسے ہی مجرم کی یہ مختصر کہانی تھی.
شکستہ ذات کو لفظوں سے جوڑ کر عرفان...
بڑے سلیقے سے یہ داستان باندھی ہے...!
"ایک الجھی ہوئی کہانی" بالاصل ایک سلجھی ہوئی کہانی تھی.سچ ہے جیسے دکھ سکھ ایک سے ویسے ہی شبیر اور سلمی جیسی کئی کہانیاں ہمارے گرد بکھری پڑی ہیں.ایک طرف جہاں کرمو کی ناگفتہ حالت پر جی بھر کر ترس آیا وہیں انور پر جی جان سے لعنت بھیجنے کو دل چاہا ...کیا انور جیسے مرد محض ایک "سلمی" پر صبر کر سکتے ہیں...؟
ناممکن صاحب ناممکن!
"کہیں جو غالب آشفتہ سر ملے" کیا بلا کا کمال عنوان ہے.بیساختہ قلمکار کو داد طلب تھپکی تصور ہی تصور میں عنایت کر دی.ایک چور کی مختصر زیست کے تلخ حقائق'چھوٹے بڑے مجرم کا امتیاز'شک کی منطق'غم روزگار'بھوک کا احساس اور ایک ناختم ہونے والی بھاگ دوڑ ...کتنا کچھ ایک ہی جگہ کمال مہارت سے سمو کر رکھ دیا گیا ہے.لائق تحسین!
"ٹوٹی ہوئی سڑک" جیسے گزر جانے والے بچپن کا کوئی ناقابل فراموش قصہ ہے...جسے جب بھی دہراؤں اک عجب کیف و سرور سا ملتا ہے.
"میں" مصور تھا مگر کیا وہ واقعی مصور تھا؟ کیا مصور ایسے ہوتے ہیں...؟ہاں! شاید کچھ ایسے بھی مصور ہوتے ہیں جن کی تصویر کشی زیست کے تاریک غار میں تابانی پر امتداد زمانہ کی کشش بھی اثر انداز ہونے سے معذور ہوا کرتی ہے.
ملتا نہ تھا واپسی کا رستہ
کیا جانیے ہم کدھر گۓ تھے...!
"ٹکٹ چیکر" ٹکٹ چیک کرتے کرتے خود بھی گویا ایک "ٹکٹ" بن گیا جس کی آپ بیتی بڑی درد ناک ہے.ایک ایسی "ٹکٹ" جسے نہ کوئی خریدتا ہے نہ اپنے پاس رکھتا ہے اور پھر وہ ہمیشہ کے لۓ ایک انجان رستے پر گم ہو جاتی ہے."ٹکٹ چیکر" تو ختم ہو چکی ہے مگر مجھے لگتا ہے میں ٹرین میں ہی کہیں رہ گئی ہوں...!!!
"بوڑھا اور جنٹلمین" سرعت سے نگاہوں کے سامنے سے سرکتی جاتی ہے.اس تحریر کو پڑھتے قاری ایک مخمسے کی زد میں آ جاتا ہے.بوڑھے خبطی کا خوف...ویت نام کی سرد جنگ کا دل دہلا دینے والا سوال...نادیہ کی محبت...اس تحریر کے رمز ہیں اور ان رموز کا اسرار جس نے فاش کرنا تھا وہ تو ہمیشہ کے لۓ شہر سے چلا گیا.حق ہا!
پانی ہے'ہوا ہے'یا خلا ہے...
ہم اپنے قدم کہاں جمائیں...؟؟؟
"دنیا کا آخری کونہ" زیر مطالعہ ہے اور میں بذات خود اس کونے پر ساکت و سامت'چپ چاپ ایستادہ ہوں...کیا پوچھا؟ کیوں؟ تو جناب اس "کیوں" کا جواب جاننے کے لۓ آپ کو یہ تحریر پڑھنا ہوگی.
یہ سچ ہے کہ میں نے کبھی اپنی غزلیں فروخت نہیں کیں ...بھوک سے نبرد آزما نہیں ہوۓ ...
غربت کو نہیں پرکھا...خوابوں سے یاری نہیں کی...مگر پھر بھی چالیس برس سے فٹ پاتھ پر گریہ زاری کرتے اس کردار کا ساتھ ضرور دیا ہے مگر یہ بھی سچ ہے کہ آنکھیں بیشک آبدیدہ ہیں مگر "چھلانگ" تو ہم بھی نہیں لگا سکتے...!
اندیشوں کے دروازوں پر
کوئی نشان لگاتا ہے
اور راتوں رات تمام گھروں پر 
وہی سیاہی پھر جاتی ہے...!
"دھند میں لپٹی شام" بالاصل دھند کی ہی نظر ہو گئی کبھی نہ ختم ہونے کے لۓ...پستول کا کھلونہ اٹھا کر چل دینے والا یہ سرے سے فراموش کر گیا اگر اصل میں یہ چل گئی تو کیا ہو گا؟؟؟
"استاد جی" کا کردار دیر تک ذہنوں کو حراست میں لینے والا اک گہر نایاب ہے.بالی نے بلاشبہ بہت برا کیا مگر اس برائی نے زیست نامراد کا بہت بڑا سبق اسے باور کروا دیا.بھرپور داد!
داستانیں تو بہت
"طویل"
کہنی تھیں...
مگر اک المیہ ہے جاناں
حیات ناتواں میری
بذات خود
اک "مختصر کہانی" ہے..
"مختصر کہانیاں " لکھنا میرے نزدیک انہی نفوس خاص کا وطیرہ ہے جو دانش بہت رکھتے ہیں کہ محض یہ ایک فن نہیں ہے بلکہ روۓ سخن کا وہ والہانہ طرز صریر خانہ ہے' جو ادراک کے پٹ چوکا دینے والے چھناکے سے وا کر دیتا ہے... محترم محمد جمیل اختر صاحب اس معیار پر کس قدر اترے ہیں یہ ہم آپ کو بتاتے ہیں.
"دیوار" تحریر کے بطن میں ایک "فکرانگیز پکار" ہے."اندھیرا" استدال کرنے والوں کے لۓ "روشنی" ہے."جنگل" ایک "پراثر کار حیات"ہے."مجھے نہیں معلوم" ایک "المیہ" ہے."حسینہ عالم" ایک "ناقابل بیان کرب" ہے."گلوبل ولیج" ایک "تلخ حقیقت" ہے."روشنی" غور سے پڑھئے یہ بالاصل راہبر کے لۓ "روشنی" ہی تو ہے."کتابیں" فیس بک کی آڑ میں اک "طرز تغافل" ہے."حل" ہاۓ! کیسا "پردرد حل" ہے."طوفان" بدترین "بھوک" ہے."جنگل میں تنہا آدمی" ایک "حقیقی آدمی کا زائچہ" ہے."روٹ" ایک "کڑوا سچ" ہے."ساتھ" بے حد متاثر کن اور فکر کو دعوت دیتی "اثرانگیز صدا" ہے."خوف" دولت کی "وضاحت" ہے."نعمت" شکر کی "فصاحت و بلاغت" ہے."اولاد" فہم کی "بے نظیرمثال" ہے."اندھا" ایک نادیدہ "درد" ہے."پھانسی" حقیقت کا "انوکھا باب" ہے."پردیس" والدین کی فوقیت اجاگر کرتی "داستان"ہے."خوف خدا" جو سرے سے ندارد ہونے کی "عملی تفسیر" ہے."سوشل میڈیا میں گھرا تنہا آدمی " سوشل میڈیا پر "عمیق ترین تجزیہ" ہے."تیزاب" اسلم کی کاریگری پر پڑا "طمانچہ" ہے."حمایت" اٹھاون لفظی "RIDDLE" ہے."بہار" ہر رت کی قدر کا "شاخسانہ" ہے."انصاف" حق ہا! ہر وہ شخص جو اس عہد میں انصاف مانگتا ہے وہ "پاگل" ہی تو ہے."ایک درخت کی کہانی" DEFORESTATI0N" کے خلاف ابھرتی ایک "چیخ" ہے.
یہ وہ ننھے منے بیج ہیں جو ایک قلمکار نے قاری کے ذہنوں کی آبیاری کے لۓ بوۓ ہیں اب دیکھنا یہ ہے کہ ان بیجوں سے کتنے درخت "تناور" ہوتے ہیں...!!!
"ٹوٹی ہوئی سڑک" کب سے ختم ہو چکی ہے مگر لگتا ہے اس دوران پڑھنے کی رفتار سیکنڈز کے محیط پر رواں دواں رہی.معلوم ہی نہ ہو سکا کب ختم ہوگئی اس سے بڑھ کر ایک مصنف کی کیا کامیابی ہوگی کہ قاری ڈوبا تو ڈوبتا ہی چلا گیا اور جب نکلا تو لگا تشنگی اب بھی باقی ہے...!!!
محترم جاوید انور صاحب'اقبال خورشید اور محمد حامد سراج کی گراں قدر آراء پر جو نظر ثانی کی تو جاننے کی جستجو حد سے سوا ہوئی.بہت اعلی!
مجموعی جائزہ جو اگر لیا جاۓ تو ابتدائیہ انتہائی پرکشش رہا.کردارنگاری میں حقائق کے ساتھ حرکت میں رہے.اسلوب میں جوش تحریر نے قلم کی آبرو کا حق بخوبی ادا کیا.بنت سورج کی اولیں کرنوں کی مانند اک خواب کے فسوں کی مانند قلب و قالب کو روشن کرتی رہی. موضوع و مقصدیت اپنے مقام پر مضبوطی سے جمے رہے.سادگی'سہل روانی'خیال کی پاکیزگی اور طرز تحریر کی دلکشی نقطئہ عروج پر رہی.مختصر یہ کہ قلم کار پرامید اور جرات کا پیکر بنا عام لوگوں کو روشن مستقبل دینے کی نوید دے رہا ہے.آخر میں بس اتنا کہوں گی....
"اگر صاحب من مصنف محمد جمیل اختر صاحب اپنی مختصر کہانیوں کی فکر انگیز باتوں کی ترویج شروع کر دیں اور اپنے باقی سب افعال ایک جانب رکھ کر اردو کی اشاعت میں بھرپور کردار ادا کریں تو کوئی شک نہیں کہ اردو ادب جانے کتنے ہی بلندیوں تلک رسائی حاصل کر لیں...!!!
بصد عقیدت شکریہ!

Comments

Popular posts from this blog

Ghulam Abbas k Afsane Katba ka Fani Jaiza by Mah Jabeen , غلام عباس کے افسانے کتبہ کا فنی جائزہ از ماہ جبین

Reviewer: Shagufta Yasmin, Book: Mangi Hui Muhabbat By M. Iqbal Abid

تبصرہ : میرا عشق صوفیانہ از کنول ریاض

Reviewer : Rehana Aijaz, Book : Rah e Yar Teri Barishein By Kubra Naveed

Reviewer: Haniya Ahmed, Book: Tooto Hui sarak by Mohammad Jamil Akhtar

Reviewer : Ibrahim Hussain Abdi, Book : Bachpan Ka December by Hashim Nadeem

محفل سخن برائے خواتین کا پہلا مشاعرہ

رپورٹ برائے ۵۵ویں نشست

میں جناح کا وارث ہوں از محمود ظفر اقبال ہاشمی