Reviewer: Haniya Ahmed, Book: Tooto Hui sarak by Mohammad Jamil Akhtar
Book : Tooti Hui Sarak
Writer : Mohammad Jamil Akhtar
Price : 300 pkr
Pages : 120
Publisher : Pakistan Adab Publisher
Category : Short Stories
Review : Haniya Ahmed
کتاب : ٹوٹی ہوئی سڑک
مصنف : محمد جمیل اختر
قیمت : 300
صفحات : 120
ناشران : پاکستان ادب پبلشر
صنف : افسانے
مبصر : ہانیہ احمد
کسی فلسفی کا کہنا ہے کہ ”اگر انسان اپنی نسیان کی طاقت سے کام نہ لے تو ماضی کے محرکات اس کی زندگی پر محیط ہوجائیں اور پھر وہ تا عمر مایوسی، اضطراب اور تناؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔“
یا اضطراب اگر کسی اور طرح اثر انداز ہو تو اندر موجود بے چینی کسی پل بھی سکون سے بیٹھنے نہیں دیتی۔ اسی اضطراب کو اگر ایک توانائی سمجھ لیں تو ایک صورت جنون بھی بن سکتی ہے۔ اسی جنوں کو کسی تحریک کا باعث بنا دیا جائے تو تاریخ معرکوں سے پر نظر آنے لگتی ہے۔
جیسے محمد جمیل اختر صاحب نے بھی اپنے پیش لفظ میں کہا ہے کہ:
“افسانوں کی کتاب پر میں پیش لفظ کو اضافی سمجھتا ہوں، میں نے جو کچھ کہنا تھا وہ افسانوں میں کہہ دیا ہے۔”
میرے ہاتھوں میں سولہ افسانوں اور پچیس مختضر کہانیوں پر مشتمل ایک کتاب ہے جس کو پڑھنا میرے لئے ذرا سا مشکل تھا کیونکہ میں نے اس سے پہلے کبھی افسانوں پر مشتمل کتاب نہیں پڑھی تھی۔ خوبصورت سر ورق سے مزین با معنی تاثر دیتی ہوئی ٹوٹی ہوئی سڑک کھولنے سے قبل ایک کہانیوں کی کتاب تھی لیکن اسکو پڑھنے کے بعد ورق در ورق اس میں زندگی جڑی ہوئی ملتی ہے۔جن کو افسانوی تاثر دے کر سطح قرطاس پر بکھیرنے کا ہنر ہر ایک پاس نہیں ہوتا۔یہ بولتے افسانے آپ پر بے شمار سوچوں کے در واہ کرتے ہیں۔ جمیل صاحب نے افسانوں کو ایسے موڑ دے کر قاری کے شعور کو دعوت دی ہے آؤ سوچیں۔
مصنف کی کہانیوں میں ریلوے اسٹیشن،آنکھیں،تنہائی اور پاگل پن بار بار آتے ہیں۔مصنف کی لکھی کہانیاں سرسری پڑھنے والی نہیں ہیں بلکہ ان میں دلچسپی اور فکر انگیزی ہے۔بیشتر افسانوں میں غربت اور اس کے مسائل سے انسان کی نفسیات کی عکاسی بہت فطری انداز میں کی گئی ہے۔
افسانوی لحاظ سے مکالمے اور منظر نگاری اسقدر دلکش انداز میں کی گئی ہے کہ تحریر جو مکالموں و حرکات و سکنات سے کردار میں ڈھلتی چلی جاتی ہے۔کہانیوں کے کردار کے المیے، انکے پاگل پن کو ایک سحر انگیز ماحول میں ڈھالا گیا ہے۔
ریلوے اسٹیشن: انسان کے ہاتھوں سے جب وقت سرک جاتا ہے تو اسے اپنے سے منسلک بہت سی پیچھے چھوٹ جانے والے ادوار یاد آتے ہیں خوبصورتی سے ماضی سے حال تک کا سفر کرتی تحریر
ٹک ٹک ٹک: وقت کو اپنے اوپر مسلط کر لینے والے انسان کی کہانی جس کو وقت گذرنے کا خوف اسے وقت کو جینا ہی نہیں دیتا
ایٹو موسو: کچھ ہو جانے کا خوف،اس ایک تکلیف میں جینے کی اذیت جو لمحہ بہ لمحہ آپکے اندر جاگ کر آپ کو کھا جائے بہت جاندار افسانہ اپنے نام کی طرح
وہ آنکھیں: انسان جب قیدی ہو جائے وہ کسی قید خانے کا ہو چاہے خواہشات،نفس کا وہ ایسے ہی سوال کرتا ہے اسکا جرم اسے سکون نہیں لینے دیتا۔
اداس ماسی نیک بخت: بہترین تحریر ہم مادیت پرستی میں غافل ہو کر اپنے رشتے ناتوں محبتوں اپنے اصل مقام سے اسقدر دور ہو گئے ہیں کہ کب سب بوجھ لگنے لگتا ہے پتہ ہی نہیں چلتا۔ماسی نیک بخت جیسے نجانے کتنے کردار ہمارے آپس پاس ہیں جو اس تکلیف سے شب و روز گذرتے ہیں
میں پاگل نہیں ہوں: بے بسی کی تحریر ہمارے معاشرے کا المیہ انسان اپنی عمر بھر کی پونجی کو لٹتے دیکھ کر صدائے احتجاج بلند کرنے کا متحمل بھی نہیں ہو سکتا۔
کس جرم کی پائی ہے سزا: تنہائی اور معاشرے کی نا انصافی کا شکار انسان جو اپنا جرم ڈھونڈتے ڈھونڈتے اپنی ساری زندگی رہن رکھ آیا۔سات سالوں میں جس کو یہ سمجھ نہ آسکی جس قید خانے میں وہ رہ رہا ہے اسکی وجہ کیا ہے؟
ایک الجھی ہوئی کہانی: الجھی ہوئی کہانی بہت سلجھے ہوئے انداز میں بیان کی گئی انسان اپنے مقصد کو پانے کے لئے کس طرح کھیل کھیل جاتا ہے اندازہ تب ہوتا ہے جب بساط پلٹ جاتی ہے۔ جاندار تحریر
کہیں جو غالب آشفتہ سر ملے: انسان پر جب شک کا دھبہ لگ جاتا ہے تو اسکا کوئی عمل قابلِ ستائش نہیں ٹھہرایا جاتا پھر وہ بد سے بد نام برا بن جاتا ہے۔ یہ بد نامی اسکی زندگی کو نگل جاتی ہے
ٹوٹی ہوئی سڑک: میرا پسندیدہ افسانہ بچپن پیچھے چھوٹ جائے اور وقت آگے گذر جائے جب وہ محرومیاں تکلیفیں پریشانیاں امیدیں خواہشات جو اس سے منسلک ہوتیں ہیں وہ کنڈلی مار کے ہمیشہ انسان کے اندر بیٹھ جاتی ہیں۔کوشش کے باوجود وہ اس بچپن کی یادوں سے نکلتا نہیں یا شاید نکلنا نہیں چاہتا۔ سب سے خوبصورت تحریر
میں: اس دور میں “میں” کی گمشدگی ہی تو مسئلہ ہے منفرد تحریر
ٹکٹ چیکر: انسان جب کسی چیز کے لئے خود کو وقف کر دے تو اسکے علاوہ سب بے معنی اور بیکار ہوتا چلا جاتا ہے خود پر مسلط اپنے شوق کی کہانی
بوڑھا اور جنٹلمین: ڈر انسان کو اسکی محبت ہر آسائش سے دور کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ لاجواب تحریر
دنیا کا آخری کونا: افسانے کے مرکزی کردار کی بے بسی جو نہ جی سکتا تھا نہ مر سکتا تھا۔عمدہ تحریر
دھند میں لپٹی شام: بے روزگارئ اور خاندانی دشمنی کیسے جیتے جاگتے انسان کو مار کے پھر بھی خود قائم رہتی ہیں۔
استاد جی: خواہشات بے لگام ہو تو انکا تاوان تا دم آخر چکانا پڑتا ہے۔
مختضر کہانیاں بھی افسانوں کی مانند زندگی کے مسائل کو بتاتی ہوئی فکر انگیز تحاریر۔ معاشرتی مسائل انسانی سوچ کو بیان کرتی ہوئیں۔ مصنف کی ہر تحریر پر مضبوط گرفت اور باریک بینی سے مشاہدہ قابلِ تحسین ہے۔ بہت سی دعائیں اور نیک تمنائیں۔
Comments
Post a Comment