Reviewer : Hassan Imam, Book : Qalam, Qartas Aur Qandeel





Book : Qalam, Qartas Aur Qandeel
Writer : Mahmood Zafar Iqbal Hashmi
Price : 700 pkr
Pages : 288
Publisher : Mavra Publishers
Category : Novels
Review : Hassan Imam


کتاب : قلم، قرطاس اور قندیل 
مصنف : محمود ظفر اقبال ہاشمی 
قیمت : 700
صفحات : 288
ناشران : ماورا پبلشرز 
صنف : ناولز
مبصر : حسن امام



جناب محمود ظفر اقبال ہاشمی ایک درویش صفت قلم کار ہیں ۔ان کی شخصیت کے گرد غور و فکر کا ایک دائرہ کھنچا ہوا سا لگتا ہے جیسے وہ کسی خواب کی خوش کن تعبیر کے متلاشی ہوں ۔ میں نے اب تک ان کی دو کتابیں پڑھی ہیں ، اور ان کتابوں کے مطالعہ سے ان کے بارے میں پہلا تاثر یہی قائم ہوتا ہے ۔ وہ ایک آدرش وادی ادیب ہیں ۔ ان کی کہانیوں کا خمیر معاشرے میں پھیلے ہوئے بےشمار واقعات اور روز مرہ کے سانحات کی ان بوالعجمیوں سے اُٹھا ہے جہاں بے اماں زندگی رہتی ہے ۔ انہوں نے انسان کی بپتا کو اپنے رنگ میں زبان دی ہے اور کہانیوں کے ذریعہ کرداروں  کے وہ پیکر تراشے ہیں جو ہم سے کچھ کہنا چاہتے ہیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ کہانی خود بیان نہیں کرتے بلکہ کرداروں کی آپ بیتی میں شامل ہو کر خود تماشائی بن جاتے ہیں ۔ زیر تبصرہ کتاب " قلم ، قرطاس اور قندیل " کا ایک اقتباس ملاحظہ ہو ؛
" خوش امیدی کی لو دور سے دیکھنے میں جتنی بھی بھلی لگے مگر اس کی تپش اور حرارت اس قدر کم ہوتی ہے کہ کسی غریب یا سفید پوش کا ایک وقت کا چولہا بھی گرم نہیں کر سکتی "
اس کتاب میں ایک ایسے ہی سفید پوش گھرانے کی کہانی ہے جس کی نسلیں فن خطاطی سے وابستہ رہی ہیں لیکن اب اس معدوم  ہوتے ہوئے فن  سے ہونے والی آمدنی زندگی کی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر نظر آتی ہے ۔ یہ خاندان اپنے مسائل میں گھرا ہوا ہے ، جس مکان میں ساری زندگی گزاری اسے عدالت کے فیصلے کے تحت  چھہ مہینے میں خالی کرنے کا نوٹس آ جاتا ہے ۔ اسی مدت میں مرکزی کردار ریحان کو اپنی بڑی بہن کی پہلے سے طئےشدہ شادی کی ذمہ داریاں بھی پوری کرنی ہوتی ہیں اور کرائے کا نیا مکان حاصل کرنے کے لیئے ایڈوانس رقم کا بند و بست بھی ۔ مایوسی کے اس اندھیرے میں امید کی  " قندیل "روشن ہوتی ہے۔ قندیل کردار ہے ایثار ، محبت اور قربانی کا ۔  اس کا دل اس کے ملکوتی حسن سے بھی زیادہ خوبصورت ہے ۔ ریحان سے اس کی ملاقات ایک خطاط کی حیثیت سے ہوتی ہے ، پہلے اسے ریحان کی خطاطی متاثر کرتی ہے پھر آہستہ آہستہ ریحان کی سحر انگیز شخصیت اسے جکڑ لیتی ہے ۔ وہ محبت کو ترسی ہوئی تھی ۔ اس کی مدد سے ریحان کے سارے مسائل حل ہو جاتے ہیں ، اور بدلے میں اسے ریحان ، ریحان کے والد اورریحان کے  محلے میں رہنے والے تمام افراد کی بے لوث محبت میسر ہو جاتی ہے ۔ پھر ایک دن اسے پتہ چلتا ہے کہ ریحان اپنے والد کے ایک بھائی جیسے دوست کی بیٹی سے منسوب ہے تو وہ منظر  سے ہٹ جاتی ہے ۔ اپنا سارا کاروبار ریحان کے حوالے کر کے وہ اس طرح غائب ہو جاتی ہے کہ تمام تر کوششوں کے با وجود ڈیڑھ سال تک اس کا کوئی پتہ نہیں چلتا ریحان غموں کی کڑی دھوپ میں زندگی کرنے کا ہنر سیکھ لیتا ہے  ۔ اس نے غم دوراں کے دکھ بھی جھیلے اور غم جاناں کی ٹھنڈی چھاؤں کو شعلوں میں بدلتے بھی دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے قلم میں اتنی طاقت نہیں کہ اس کے بعد پیش آنے والے واقعات کے کرب  کو اسی طرح پیش کر سکوں جو میں نے محسوس کیا ۔ وہ صرف پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔ اس کتاب میں نہ تو سطحی قسم کے جملے ہیں اور نہ ہی کسی طوفانی قسم کا عشق ۔ اس کے ایک ایک جملے میں تہذیبی رچاؤ ہے جو ہاشمی صاحب کی شخصیت کے عین مطابق ہے ۔
اس کتاب میں محبت کے رنگ ہر طرف بکھرے ہوئے ہیں ۔ ہاشمی صاحب کا تخیل اور ان کے قلم کی جولانی پورے عروج پر نظر آتی ہے ۔ کتاب میں کوئی منفی کردار نہیں ۔  سارے کردار مثبت ہیں  ۔ نورالدین نفیس رقم اور ریحان احمد جمال رقم باپ اور بیٹے کے مثالی کردار ہیں جس کی بنیاد محبت اور احترام پر ہے ۔ نورالدین اور شہاب الدین کی پچاس سالہ  پرانی دوستی خلوص اور بھائی چارے کی مثال ہے ۔ شہاب کے انتقال کے بعد ان کی قبر پر نورالدین کی زبان سے ادا ہوئے جملے قاری پر رقت طاری کر دیتے ہیں ،
" تو آخر عمر تک باز نہیں آیا ۔۔۔۔۔جاتے جاتے اپنی بیٹی کی عمر بھر کی جمع پونجی بھی مجھے ہی دے گیا ۔۔۔۔۔کاش میں بھی تجھے کچھ دے سکتا ۔۔۔اور کچھ نہیں تو کاش اس بار میں اپنی زندگی ہی دے کر تجھے بچا سکتا ۔۔۔۔۔۔۔آج میں تجھے کہہ رہا ہوں شہابے ۔۔۔۔۔اٹھ جا یار ۔۔۔۔۔۔۔بہت ہوگئی ۔۔۔۔۔۔۔۔اتنی دیر تو تو کبھی چپ نہیں رہا ۔۔۔۔۔۔۔۔تو تو سنجیدہ ہی ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ تجھ پر سنجیدگی بالکل نہیں سجتی یار ۔۔۔۔"
ریحان اور نوید بٹ کی بے لوث دوستی بھی اس کتاب کا ایک اہم حصہ ہے ۔ جب ریحان  نوید بٹ سے محبت کے بارے میں اپنی کیفیت کا ذکر کرتا ہے تو جواب میں کیا خوبصورت جملے تخلیق ہوئے ہیں ، ملاحظہ ہو ؛
" جب موسم۔ بدلتا ہے تو قدرت ہجرت کرنے والے پرندوں کو ان کی اگلی منزل کا پتہ خود دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔پتنگ اور پرندوں کے بس میں کچھ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کی منزل آپ کے عین سامنے صرف آپ کی منتظر ہے ۔۔۔۔۔۔۔آج سے سب کچھ ہوا اور اس ذات پر چھوڑ کر دیکھیں جو کٹی ہوئی پتنگ اور ہجرت کرنے والے پرندوں کی منزل کا تعین کرتی ہے اور خدا کی قسم کیا خوب کرتی ہے "
انسان کے حالات کے ہاتھوں تماشہ بننے کا قصہ بہت پرانا سہی مگر وہ آج بھی اپنے اندر تازگی اور بصیرت رکھتا ہے ۔ ہاشمی صاحب نے بڑے سرل سبھاؤ کے ساتھ ایسی کہانیاں لکھی ہیں جو روح میں اتر کر تا دیر ذہن میں زندہ رہتی ہیں ۔ انہوں نے جگہ جگہ سے ادھڑے ہوئے زندگی کے پیراہن کہنہ کی پیوند کاری بڑی ہنر مندی سے کی ہے ۔ ایسی باریک بخیہ گری گہرے مشاہدے اور زندگی سے اخذ کردہ تجربوں سے ہی ممکن ہو سکتی ہے ۔
ایسے تمام احباب جو اچھی کتابیں پڑھنے کے شوقین ہیں انہیں یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیئے ۔

Comments

Popular posts from this blog

Ghulam Abbas k Afsane Katba ka Fani Jaiza by Mah Jabeen , غلام عباس کے افسانے کتبہ کا فنی جائزہ از ماہ جبین

Reviewer: Shagufta Yasmin, Book: Mangi Hui Muhabbat By M. Iqbal Abid

تبصرہ : میرا عشق صوفیانہ از کنول ریاض

Reviewer : Rehana Aijaz, Book : Rah e Yar Teri Barishein By Kubra Naveed

Reviewer: Haniya Ahmed, Book: Tooto Hui sarak by Mohammad Jamil Akhtar

Reviewer : Ibrahim Hussain Abdi, Book : Bachpan Ka December by Hashim Nadeem

محفل سخن برائے خواتین کا پہلا مشاعرہ

رپورٹ برائے ۵۵ویں نشست

میں جناح کا وارث ہوں از محمود ظفر اقبال ہاشمی